سابقہ بلاگ کی طوالت کی وجہ سے اس کا پیش لفظ اور نتائج الگ سے پوسٹ کئے گئے ہیں۔ مکمل بلاگ دیکھنے کے لئے old posts پر کلک کریں
پیش لفظ
الحمد لله الذي دعانا إلی الاجتماع ومنعنا من النزاع واخبرنا انہ سبب للفشل و ذھاب الریاح والصلوۃ والسلام علی من دلنا علی طریق النجاح ومنعنا من الخلاف واتباع الھوی وعلی الہ واصحابہ ائمۃ الھدی وطرق الفلاح: امابعد
مسلمانوں کی دنیا میں زبوں حالی:
آج کی دنیا میں اگر مسلمانوں کی کافروں کے ہاتھوں ذلت اور مسکنت کا غور سے جائزہ لیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں پر بیتنے والے حالات وواقعات کامشاہدہ کریں توہمیں ان حالات کی بہترین منظرکشی حضورﷺ کی زبان ِ اطہرسے کی گئی پیشن گوئی میں نظر آتی ہے جس کی حرف بحرف تصدیق ہورہی ہے:
«قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمُ الْأُمَمُ مِنْ كُلِّ أُفُقٍ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ عَلَى قَصْعَتِهَا " قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَمِنْ قِلَّةٍ بِنَا يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: " أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنْ تَكُونُونَ غُثَاءً كَغُثَاءِ السَّيْلِ، تُنْتَزَعُ الْمَهَابَةُ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّكُمْ، وَيَجْعَلُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ ". قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: " حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ "»[1]
آج کی مسلم دنیا کا زوال اور دنیا میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہونے کےباوجود بے قیمت ہونے اور کفار کی ٹھوکروں میں لڑھکنے کی وجہ جو حضورانور ﷺ نے اس حدیث مبارکہ میں بیان فرمائی ہے وہ زندگی کی محبت اور موت کی نفرت ہے ، اس حدیث کی دوسری روایتوں میں حب الدنیا وکراھیۃ الموت ذکر کیا گیا۔ نتیجہ دونوں کا قریب قریب ایک ہی ہے۔ دنیا کا قانون ہی اُلٹ ہے یہاں جو ڈھونڈو وہ درحقیقت اس کے الٹ میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔ صحابہ شہادت کی موت سے محبت کرتے تھے ،اور وہ ان سے بھاگتی تھی ۔
آج کے مسلمان نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے ۔ اور دنیا میں ہی ساری کامیابیاں اپنے نام سمیٹنا چاہتا ہے ۔ جب ہر کوئی کامیابیوں کا سہرا اپنے نام سجانا چاہتا ہے تو ظاہر ہے اختلاف بنیں گے۔ آج کے دور میں مسلمانوں کی ذلت کی وجہ اگرچہ ہے تو وہی جو آپ ﷺ نے بیان فرمائی ہے ، مگر یہ کوئی بھی ظاہر نہیں کرنا چاہ رہا ۔ ہم ظاہر یہی کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا سے کوئی محبت نہیں ، یہ تو دھوکے کا گھر ہے مچھر کا پر ہے ، مکڑی کا جالاہے ۔ ظاہری وجہ جو نظر آرہی ہے وہ مسلمانوں کا باہمی اختلاف وانتشار ہے ۔ جسے استعماری طاقتیں روز بڑھاوا دیتی ہیں تاکہ مسلمان کہیں سنبھل نہ سکے۔
مسلمانوں کو جن بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف اُکسایا گیا ہے ، وہ بہت سی ہیں : کہیں رنگ وجہ بنا ہے تو کہیں نسل ، کہیں قومیت کی برتری کا دعوی ہے تو کہیں زبان کا فخر بے انتہاہے۔ مگر یہ ساری وجوہات اسلامی تعلیمات کے سامنے منٹوں میں بہہ سکتی ہیں ۔ کیونکہ فخرِ انسانیت ، آقائے نامدار ﷺ نے اپنی تعلیم کی بنیاد میں ان تما م فخروں کو گاڑ دیا ، اور بے حیثیت کردیا۔
سب سے سنگین اختلافی وجہ وہ فرقہ واریت ہے جو کہ اسلام اورمسلمانوں کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹے جارہی ہے۔فرقہ واریت سے پیدا ہونے والی نفرتیں سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہیں، اور ان نفرتوں کے جواز کے لئے سبب ، وجہ اور علت بھی دین سے ہی پیش کی جاتی ہیں۔ایک دوسرے سے صرف ملنے بات کرنے معانقے کرنے پر دین سے خارج اور نکاح باطل ہونے کے فتوے جاری کئے جاتے ہیں ۔
خود نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو آپ ﷺ اپنے شدید ترین مخالفین کے ساتھ میل ملاپ کرتے نظرآتے ہیں ۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے کیوجہ سے جب خودمشرکین مکہ سے معاہدہ ٹوٹ گیا اور وہ اس کی تجدید کے لئے سرگرم ہوئے تو ابوسفیان جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے جب مدینہ آئے تو حضور ﷺ کے گھر اپنی بیٹی کی ملاقات کے لئے گئے۔یعنی حضور ﷺ سے بھی ملے ، حضور ﷺ کے گھر بھی تشریف لےگئے اور حضورﷺ نے انہیں اپنی زوجہ مطہرہ سے بھی ملاقات کی اجازت دے دی۔
مگر ہمارا حال یہ ہے کہ
آج کے دور میں امت مسلمہ كی وحدت اور اتحاد ہرذی شعور مسلم کی خواہش ہے ۔ لیکن ہرمسلمان کی یہ خواہش ہونے کے باوجود اتحاد نہ ہوسکنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی یہ تو چاہتا ہے کہ ہم ایک ہوجائیں لیکن اس کے لئے اس کی سمجھ میں سب سے درست اورآسان طریقہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ سارے اس کے بتائے ہوئے یا معمول بہ طریقے کو اختیار کرلیں ، کیونکہ وہ درست راستے پر ہے اور باقی سب غلط ہیں۔
ہر ایک فرقے نے اپنے آپ کو درست اور صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنے تئیں دلائل کے انبار لگائے ہوئے ہیں ۔ اور ہر ایک کے دلائل کی ابتداء قرآن کریم سے ہوتی ہے ۔ ہر جماعت فرقہ بازی کے خاتمے کے لئے سورہ آل عمران کی آیت پیش کرتی ہے ۔ ۷۲ فرقوں والی حدیث سناتی ہے، کامیاب جماعت قرآن اور سنت کو تھامنے والے ، کامیاب سنت اور خلفاء کو تھامنے والے ، اور کامیاب قرآن اور اہل بیت کو تھامنے والے سنا کہ " چوں کہ ، چنانچہ ، گویا کہ ، لیکن" کاراگ الاپتی ہے ، مثبت منفی کرکے دکھاتی ہے ، اور نتیجہ وہی " ڈھاک کے تِین پات"نکلتا ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ متکلم کا فرقہ ہی کامیاب ہے ، باقی سب جہنمی فرقے ہیں ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا قرآن نے اتنے اہم موضوع کو ایسی طور پر واضح کیوں نہ کیا کہ اسے ہر کوئی استعمال نہ کرسکتا ، تو اس کا جواب ہے قرآن کریم میں سورۂ آل عمران کی معروف آیت سے پہلے اور بعد کے حصے کو بھی ساتھ ملائیں توبات واضح ہوجاتی ہے :
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (102) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (103) وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (104) وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (105) يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (106) وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (107) تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ (108)} [2]
ترجمے کی میرے خیال میں اس لئے ضرورت نہیں کہ یہ مضمون اہل علم حضرات کے لئے ہی لکھا گیا ہے ۔البتہ اس رکوع سے جو مفہوم سمجھایا جانا چاہا گیا ہے اس کو نکات کی صورت میں ذکرکیا جارہا ہے:
اس رکوع میں جومضامین بتائے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں
1. تقوی اختیار کرو۔(اگر انسان کو اللہ کا ڈر ہوتو وہ لوگوں کی پسندناپسند کوسامنے رکھ کر اپنا راستہ اختیار نہیں کرتا بلکہ اللہ کے سامنے جوابدہی کوسامنے رکھ کر اپنی زندگی کا رخ درست کرتاہے۔)
2. موت کوسامنے رکھ کر زندگی گزارو۔(اگر ہر انسان کے سامنے یہ بات ہو کہ میں نے بالآخر مرنا ہے اور یہاں کی ساری لذتیں واہ واہ فانی ہیں ،یہاں پر نام فانی ہے ، یہاں کی کامیابیاں بھی لوگ بھول جائیں گے اور ناکامیاں بھی لوگ بھول جائیں گے مگر مرنے کے بعد میرے عمل میرے نامہ اعمال میں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے تو انسان درست ہوسکتاہے۔)
3. اللہ کی کتاب اور سنت حبیب کو تھامے رہو۔( ہر انسان اپنی زندگی کا جوابدہ ہے کہ کیا وہ خود عمل کررہا ہے۔)
4. دشمنی ہلاکت کیوجہ ہے۔
5. دشمنی ختم ہونا نعمت ہے۔
6. اگر کہیں کسی میں دشمنی پیدا ہوجائے تو ایک جماعت دوبارہ صلح کرانے والی ہونی چاہئے۔
7. واضح دلائل آجانے کے بعد آپس میں لڑائی بھڑائی والے کام مت کرو۔
8. دنیامیں سرخ رو ہونا اہم نہیں ہے۔آخرت کی سرخ روئی اہم ہے۔
9. یہاں تواپنے آپ کودرست ثابت کرلیں لیکن اگر آخرت میں روسیاہ ہوگئے تو اس عارضی دنیا کی سربلندی کس کام کی۔
نوٹ :۔ مسلمانوں کے باہم اختلافی مسائل بہت تھوڑے ہیں ، اکثر باتیں اتفاقی ہیں ۔ مثلاً نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، زکوۃ ادا کرنا حج کرنا ، معاملات اور معاشرت درست رکھنا وغیرہ ۔ اختلاف صرف کچھ چیزوں میں ہے اور وہ بھی عمل کی جزئیاتی نوعیت پر۔اگر ہم حساب لگائیں تو تقریبا اسی سے نوے فیصد اتفاق ہے صرف کوئی دس فیصد اختلاف ہے۔
اسی طرح قرآن پاک کے تراجم میں جو اختلاف ہے وہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اور ننانوے فیصد پہلے ہی اتفاق ہے ۔ اور عقلی طور پر کسی بھی دو عقل مندوں میں سو فیصد اتفاق ممکن ہی نہیں ہے۔
مسئلہ کاحل :۔
مسئلہ کی نوعیت کچھ یوں ہے کہ آج کے دور کے مسلمانوں کی مثال اس انسان کی ہے جومعذور ہوگیاہو۔ اب وہ پہلے جیسا انسان بننا چاہے بھی تو نہیں بن سکتا ۔ اب مسئلہ کا حل یہی ہے کہ وہ جلداز جلد اپنی اس معذوری کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لے۔ اسی طرح اب پہلے مسلمانوں کی طرح کا اجتماع تو ہمارا ناممکن بن چکاہے ۔ اب ہمارے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ ہم اس معذوری کے ساتھ جینا سیکھ لیں ۔
عوامی مقامات پر دوسروں کی دلآزاری والی بات نہ کریں:۔
ایک دوسرے کے اختلاف کو ہضم کرناسیکھیں ۔ ایک دوسرے کو چڑانا اور اپنے جیسا مسلمان بنانے کی کوشش چھوڑدیں ۔ اپنے مسلکی اور فرقہ وارانہ تعلیمات صرف اپنے شاگردوں کو اپنے مدرسوں میں دیں۔ اگر کوئی اس طرح کا اختلافی مسئلہ پوچھ رہا ہے تو پبلک میں اسے جواب نہ دیں بلکہ انفرادی طور پر تنہائی میں یا پرسنل گیدرنگ میں اسے جواب دیں۔ عوام کے سامنے مناظرے اور اپنی حقانیت کے علی الاعلان اور ڈنکے کی چوٹ پر دعوے کرنا چھوڑدیں ۔
دوسرے کی رائے کو بھی صحیح ہونے کا امکان دیں:۔
جس طرح قرن اول میں مسلمان مختلف فقہوں کے باوجود آپس کی محبت برقرار رکھے رہے۔ اسی طرز پر آج کے مسلمان بھی باہمی محبت اور اتفاق کے لئے اسی قاعدہ "رأي صواب يحتمل الخطأ ورأي غيري خطأ يحتمل الصواب" پرعمل کریں۔اس قاعدے کے سابقہ قرن اول والے محل کے متلاشی نہ رہیں۔
اگر پیر بھائی جتنی تعظیم نہیں دے سکتے توکم از کم ذمی کے احکام تو دیں۔
ہم اپنے پیر بھائی ، تنظیمی بھائی ، تبلیغی بھائی ،جہادی بھائی ، سیاسی بھائی، کو سگے بھائی سے زیادہ حقوق دینے کے لئے تیار ہیں۔ مگر اپنے نبی کی نسبت سے بننے والے بھائی کو کافروں سے بھی زیادہ مبغوض سمجھتے ہیں۔انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم سب غیرمسلموں کے حقوق اور ان کے ساتھ تعلقات کے درجے تو آگے بڑھ کربتاتے ہیں ۔کہ غیر مسلم کے ساتھ مواسات جائز ہے ، معاملات جائز ہیں ، معاشرت جائز ہے ۔موالات اور مواخات جائز نہیں ۔ مگر صرف وہی حقوق جو ہم کافر کودینے کے لئے تیارہیں لیکن وہی حقوق ہم اپنے پڑوسی کلمہ پڑھنے والے ، مسلمان بھائی کودینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اہل کتاب کے لئے قرآن کا دیا گیا فارمولا:۔
اگر ہم اپنے علاوہ سب کو نامسلم بھی فرض کرلیں تو بھی کم از کم اہل کتاب تو مانیں گے اور اہل کتاب کے ساتھ بھی باہمی اچھے تعلقات رکھنے کاطریقہ قرآن کریم نے بتایا ہے :
﴿قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾ [101]
اس آیت میں جوطریقہ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ متفقہ چیزوں کو اختیار کرلیں ، اور انہی پر باہمی بات چیت رکھیں ۔ مختلف فیہ چیزوں کوچھوڑ دیں ۔
صریح کافروں کو بھی قرآن نے مومنوں کے موازی ذکرکیا ہے:۔
اور قرآن تو ایمان والوں کو یہودیوں ، نصرانیوں اور صابیئوں کے مقابلے میں رکھ کر بتا رہے کہ کامیابی سب کو حاصل کرنا ممکن ہے : آیات حسب ذیل ہیں ۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾[102]
صریح کافروں کے ساتھ حسن سلوک :۔
اگر اس سے ایک درجہ اور آگے اگر سب کو مشرک اور کافربھی سمجھ رکھا ہے تو بھی جو کافر آپ سے قتال نہیں کررہااس کے ساتھ بھی اچھاسلوک کیا جاسکتا ہے۔
﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾[103]
نتائج بحث:
أ- مسلمان پوری دنیا میں باہمی اختلاف وانتشار کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہورہے ہیں۔
ب- قرآن نے اختلاف وانتشار سے نکلنے کے لئے اصول مہیا کئے ہیں۔
ت- اختلاف وانتشار سے نکلنے کے لئے سب سے پہلی چیز خدا کاڈر اور دوسری چیز موت کی یاد ہے۔
ث- اختلاف وانتشار سے نکلنے کے لئے دشمنی کو اندھاکنواں اور امن کو نجات سمجھناضروری ہے۔
ج- اگر دومسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہو تو ایک جماعت کاکام ہی یہی ہونا چاہئیے جو صلح کروائے۔
ح- دنیا کی ذلت ورسوائی اہم نہیں ہے آخرت کی ذلت و رسوائی اہم ہے۔
خ- قرآن کے ترجمے میں اختلاف کی تین وجوہات ہیں۔
د- پہلی وجہ تسامح اور بے توجہی کے باعث کسی لفظ ، جملے یا ترکیب کا غلط ترجمہ کردینا۔
ذ- دوسری قسم اردو ترجمہ کرتے ہوئے کسی لفظ ، جملے یا پیرائے سے بے ادبی مترشح ہونا۔
ر- تیسری قسم اپنے مسلکی مخصوص معنی ٰ حاصل کرنے کے لئے مخصوص ترجمہ کرنا۔
ز- اس دنیا سے رخصت ہوجانے والے مترجمین کے ترجموں میں تبدیلی ناممکن ہے۔
س- پہلی دوقسموں میں تبدیلی نئے ترجموں میں کی جارہی ہے۔
ش- تیسری قسم کی تبدیلی تھوڑی مشکل ہے۔
ص- کیونکہ کوئی بھی اپنی رائے ، عقیدہ ، سوچ سے ہٹنے کوتیار نہیں ، لہذ ا جدید دور میں استعمار ، استشراق، اور سیکولرزازم کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنا ضروری ہے۔
ض- ہمیں اپنی معذوری کے ساتھ جینا سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ط- دوسرے مسلک والوں کو کم ازکم غلط ممکنہ صحیح ہی مان لیں۔
ظ- اگر نہیں تو کم ازکم ایک ذمی جتنے حق ہی مان لیں۔
ع- دوسروں کوزبردستی اپنے فرقے میں داخل کرنے کی کوششیں چھوڑدینی چاہیئے۔
غ- عوامی مقامات پر دوسروں کے معتقدات پر تنقید کرنے سے پرہیز کریں۔
ف- دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں۔
سفارشات:
« اتفاقی موضوعات پرتحقیقات کی جائیں۔
« اختلافی موضوعات کو حتی الامکان نہ چھیڑا جائے۔
« جوباتیں جوڑ پیدا کرنے میں معاون ہوں ایسی باتیں جمع کی جائیں۔
« اختلافی موضوعات چھیڑے والوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔
« علمی نقد علمی بنیادوں پر کرنے اور سننے کاحوصلہ پیدا کیاجائے۔
« معاشرے میں تحمل پیدا کرنے والے موضوعات پر کام کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment