کیا فی زمانہ ہمارے لیے قرآن کریم کا کوئی متفقہ ترجمہ منظرِ عام پر لانا ممکن ہے؟
کراچی یونیورسٹی میں ایم فل کے دوران لکھی گئی اسائنمنٹ
1443ھ/2022ء
فہرست
مسلمانوں کی دنیا میں زبوں حالی:
مشکلۃ البحث:کیا قرآن پاک کے تراجم میں
فرق ہے ؟ اور فرق کی کیا نوعیت ہے؟
پہلی قسم: کسی حرف کے صحیح معنیٰ کی
تعیین میں تسامح۔
"(۱) کبھی
ضمیر غائب کا مرجع متعین کرنے میں غلطی ہوجاتی ہے:
(۲) کبھی نحو کے کسی قاعدے
کو برتنے میں غلطی ہوجاتی ہے:
(۵) دو ملتے جلتے الفاظ کے
درمیان باریک فرق میں تساہل بھی غلطی کا سبب بن جاتا ہے:
ڈاکٹر محی الدین غازی کی رائے پر نقد:
مولانا احمدرضا خان بریلوی صاحب کے ترجمے پر نقد کے لئے بریلوی
علماء کی آراء کا استعمال
بریلوی علمائے کرام کی طرف سے دوسرے تراجم پرنقد:
اہلحدیث علماء کا مولانا محمود الحسن دیوبندی صاحب کے ترجمہ پر
نقد:
دیوبندی علماء کی طرف سے مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب کے
ترجمے پرنقد:
اہلحدیث علماء کا مولانا طاہر القادری
صاحب کے ترجمہ پر نقد:
قادیانیوں کا مسلمانوں
کے باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئےسب تراجم
پر نقد
دوسری قسم : کسی لفظ یا آیت کے ترجمہ کے پیرایے میں افراط یا تفریط ادب
تیسری قسم: کسی لفظ یا آیت سے اپنے مسلک کے ثبوت کے لئے مخصوص
ترجمہ کرنا
اہل حدیث علماء کے ترجمے
کی مثال:
"کیا ایک ترجمے پر اتفاق ہوسکتا ہے؟"
عوامی مقامات پر دوسروں کی دلآزاری والی بات نہ کریں:۔
دوسرے کی رائے کو بھی صحیح ہونے کا امکان دیں:۔
اگر پیر بھائی جتنی تعظیم نہیں دے سکتے توکم از کم ذمی کے
احکام تو دیں۔
اہل کتاب کے لئے قرآن
کا دیا گیا فارمولا:۔
صریح کافروں کو بھی قرآن نے مومنوں کے موازی ذکرکیا ہے:۔
صریح کافروں کے ساتھ حسن سلوک
:۔
پیش لفظ
الحمد لله الذي دعانا إلی الاجتماع ومنعنا من النزاع واخبرنا انہ سبب
للفشل و ذھاب الریاح والصلوۃ والسلام علی من دلنا علی طریق النجاح ومنعنا من الخلاف واتباع الھوی وعلی الہ
واصحابہ ائمۃ الھدی وطرق الفلاح: امابعد
مسلمانوں کی دنیا
میں زبوں حالی:
آج کی دنیا میں اگر مسلمانوں کی کافروں کے
ہاتھوں ذلت اور مسکنت کا غور سے جائزہ لیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں پر بیتنے والے
حالات وواقعات کامشاہدہ کریں توہمیں ان حالات کی بہترین منظرکشی حضورﷺ کی زبان ِ
اطہرسے کی گئی پیشن گوئی میں نظر آتی ہے جس کی حرف بحرف تصدیق ہورہی ہے:
«قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمُ الْأُمَمُ مِنْ كُلِّ أُفُقٍ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ عَلَى قَصْعَتِهَا " قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَمِنْ قِلَّةٍ بِنَا يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: " أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنْ تَكُونُونَ غُثَاءً كَغُثَاءِ السَّيْلِ، تُنْتَزَعُ الْمَهَابَةُ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّكُمْ، وَيَجْعَلُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ ". قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: " حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ "»[1]
آج کی مسلم دنیا کا زوال اور دنیا میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہونے کےباوجود بے قیمت
ہونے اور کفار کی ٹھوکروں میں لڑھکنے کی
وجہ جو حضورانور ﷺ نے اس حدیث مبارکہ میں
بیان فرمائی ہے وہ زندگی کی محبت اور موت کی نفرت ہے ، اس حدیث کی دوسری روایتوں
میں حب الدنیا وکراھیۃ الموت ذکر کیا گیا۔ نتیجہ دونوں کا قریب قریب ایک ہی ہے۔
دنیا کا قانون ہی اُلٹ ہے یہاں جو ڈھونڈو
وہ درحقیقت اس کے الٹ میں پوشیدہ ہوتا ہے
۔ صحابہ شہادت کی موت سے محبت کرتے تھے ،اور وہ ان سے بھاگتی تھی ۔
آج کے مسلمان نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے ۔ اور
دنیا میں ہی ساری کامیابیاں اپنے نام سمیٹنا چاہتا ہے ۔ جب ہر کوئی کامیابیوں کا
سہرا اپنے نام سجانا چاہتا ہے تو ظاہر ہے اختلاف بنیں گے۔ آج کے دور میں مسلمانوں
کی ذلت کی وجہ اگرچہ ہے تو وہی جو آپ ﷺ نے بیان فرمائی ہے ، مگر یہ کوئی بھی ظاہر
نہیں کرنا چاہ رہا ۔ ہم ظاہر یہی کرتے ہیں
کہ ہمیں دنیا سے کوئی محبت نہیں ، یہ تو
دھوکے کا گھر ہے مچھر کا پر ہے ، مکڑی کا جالاہے ۔ ظاہری وجہ جو نظر آرہی ہے وہ مسلمانوں کا باہمی اختلاف وانتشار ہے ۔ جسے استعماری طاقتیں روز
بڑھاوا دیتی ہیں تاکہ مسلمان کہیں سنبھل نہ سکے۔
مسلمانوں کو جن
بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف اُکسایا گیا
ہے ، وہ بہت سی ہیں : کہیں رنگ وجہ بنا ہے تو کہیں نسل ، کہیں قومیت کی برتری کا
دعوی ہے تو کہیں زبان کا فخر بے انتہاہے۔ مگر یہ ساری وجوہات اسلامی تعلیمات کے
سامنے منٹوں میں بہہ سکتی ہیں ۔ کیونکہ فخرِ انسانیت ، آقائے نامدار ﷺ نے اپنی
تعلیم کی بنیاد میں ان تما م فخروں کو گاڑ دیا ، اور بے حیثیت کردیا۔
سب سے سنگین اختلافی وجہ وہ فرقہ واریت ہے جو کہ اسلام
اورمسلمانوں کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹے جارہی ہے۔فرقہ واریت سے پیدا ہونے
والی نفرتیں سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہیں، اور ان نفرتوں کے جواز کے لئے سبب
، وجہ اور علت بھی دین سے ہی پیش کی جاتی ہیں۔ایک دوسرے سے صرف ملنے بات کرنے
معانقے کرنے پر دین سے خارج اور نکاح باطل ہونے کے فتوے جاری کئے جاتے ہیں ۔
خود نبی کریم ﷺ کی
سیرتِ طیبہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو آپ ﷺ اپنے شدید ترین مخالفین کے ساتھ میل ملاپ کرتے نظرآتے ہیں ۔ صلح حدیبیہ
کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے کیوجہ سے جب خودمشرکین مکہ سے معاہدہ ٹوٹ گیا اور وہ اس کی تجدید کے لئے
سرگرم ہوئے تو ابوسفیان جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے جب مدینہ آئے تو حضور ﷺ کے گھر اپنی بیٹی کی
ملاقات کے لئے گئے۔یعنی حضور ﷺ سے بھی ملے ، حضور ﷺ کے گھر بھی تشریف لےگئے اور
حضورﷺ نے انہیں اپنی زوجہ مطہرہ سے بھی ملاقات کی اجازت دے دی۔
مگر ہمارا حال یہ ہے کہ
آج کے دور میں امت مسلمہ كی وحدت اور اتحاد ہرذی شعور مسلم کی خواہش ہے ۔ لیکن ہرمسلمان کی یہ خواہش ہونے کے باوجود اتحاد نہ ہوسکنے
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی یہ تو چاہتا ہے کہ ہم ایک ہوجائیں لیکن اس کے لئے
اس کی سمجھ میں سب سے درست اورآسان طریقہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ سارے اس کے بتائے
ہوئے یا معمول بہ طریقے کو اختیار کرلیں ، کیونکہ وہ درست راستے پر ہے اور
باقی سب غلط ہیں۔
ہر ایک فرقے نے اپنے آپ کو درست اور صحیح ثابت کرنے کے لئے
اپنے تئیں دلائل کے انبار لگائے ہوئے ہیں ۔ اور ہر ایک کے دلائل کی ابتداء قرآن
کریم سے ہوتی ہے ۔ ہر جماعت فرقہ بازی کے
خاتمے کے لئے سورہ آل عمران کی آیت پیش کرتی ہے ۔ ۷۲ فرقوں والی حدیث سناتی ہے،
کامیاب جماعت قرآن اور سنت کو تھامنے والے ، کامیاب سنت اور خلفاء کو تھامنے والے ، اور کامیاب قرآن اور اہل بیت کو
تھامنے والے سنا کہ " چوں کہ ،
چنانچہ ، گویا کہ ، لیکن" کاراگ الاپتی ہے ، مثبت منفی کرکے دکھاتی ہے ، اور
نتیجہ وہی " ڈھاک کے تِین پات"نکلتا
ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ متکلم کا فرقہ ہی کامیاب ہے ، باقی سب جہنمی فرقے ہیں ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا قرآن نے اتنے اہم موضوع کو ایسی طور پر واضح کیوں نہ
کیا کہ اسے ہر کوئی استعمال نہ کرسکتا ، تو اس کا جواب ہے قرآن کریم میں سورۂ آل عمران کی معروف آیت سے پہلے
اور بعد کے حصے کو بھی ساتھ ملائیں توبات واضح ہوجاتی ہے :
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (102) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (103) وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (104) وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (105) يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (106) وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (107) تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ (108)} [2]
ترجمے کی میرے خیال میں اس لئے ضرورت نہیں کہ یہ مضمون
اہل علم حضرات کے لئے ہی لکھا گیا ہے ۔البتہ اس رکوع سے جو مفہوم سمجھایا جانا
چاہا گیا ہے اس کو نکات کی صورت میں
ذکرکیا جارہا ہے:
اس رکوع میں جومضامین بتائے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں
1. تقوی اختیار کرو۔(اگر انسان کو اللہ کا ڈر
ہوتو وہ لوگوں کی پسندناپسند کوسامنے رکھ کر اپنا راستہ اختیار نہیں کرتا بلکہ
اللہ کے سامنے جوابدہی کوسامنے رکھ کر اپنی زندگی کا رخ درست کرتاہے۔)
2. موت کوسامنے رکھ کر زندگی گزارو۔(اگر ہر
انسان کے سامنے یہ بات ہو کہ میں نے بالآخر مرنا ہے اور یہاں کی ساری لذتیں واہ
واہ فانی ہیں ،یہاں پر نام فانی ہے ، یہاں کی کامیابیاں بھی لوگ بھول جائیں گے اور
ناکامیاں بھی لوگ بھول جائیں گے مگر مرنے کے بعد میرے عمل میرے نامہ اعمال میں
ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے تو انسان درست ہوسکتاہے۔)
3. اللہ کی کتاب اور سنت حبیب کو تھامے رہو۔(
ہر انسان اپنی زندگی کا جوابدہ ہے کہ کیا وہ خود عمل کررہا ہے۔)
4. دشمنی ہلاکت کیوجہ ہے۔
5. دشمنی ختم ہونا نعمت ہے۔
6. اگر کہیں کسی میں دشمنی پیدا ہوجائے تو ایک
جماعت دوبارہ صلح کرانے والی ہونی چاہئے۔
7. واضح دلائل آجانے کے بعد آپس میں لڑائی
بھڑائی والے کام مت کرو۔
8. دنیامیں سرخ رو ہونا اہم نہیں ہے۔آخرت کی
سرخ روئی اہم ہے۔
9. یہاں تواپنے آپ کودرست ثابت کرلیں لیکن
اگر آخرت میں روسیاہ ہوگئے تو اس عارضی دنیا کی سربلندی کس کام کی۔
نوٹ :۔ مسلمانوں کے باہم اختلافی مسائل بہت تھوڑے ہیں ،
اکثر باتیں اتفاقی ہیں ۔ مثلاً نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، زکوۃ ادا کرنا حج کرنا ،
معاملات اور معاشرت درست رکھنا وغیرہ ۔ اختلاف صرف کچھ چیزوں میں ہے اور وہ بھی
عمل کی جزئیاتی نوعیت پر۔اگر ہم حساب لگائیں تو تقریبا اسی سے نوے فیصد اتفاق ہے
صرف کوئی دس فیصد اختلاف ہے۔
اسی طرح قرآن پاک کے تراجم میں جو اختلاف ہے وہ ایک فیصد
سے بھی کم ہے اور ننانوے فیصد پہلے ہی اتفاق ہے ۔ اور عقلی طور پر کسی بھی دو عقل مندوں میں سو
فیصد اتفاق ممکن ہی نہیں ہے۔
قرآن پاک کے تراجم کاموازنہ:
اس مختصر مضمون میں ہم جس بات کا جائز ہ لینے کی کوشش کریں
گے ، یا جن سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے وہ درج ذیل ہیں :
مشکلۃ البحث:کیا قرآن پاک کے تراجم میں فرق ہے ؟ اور فرق کی کیا نوعیت ہے؟
أ-
کسی الفاظ کے صحیح معنی کے انتخاب میں چوک ہوئی
ہے ،؟
ب- استعمال کیا گیا پیرایہ درست نہیں ہے؟
ت- یا اس فرق کی وجہ اپنے نظریے کے اثبات
کی کوشش ہے ؟
تراجم میں اختلاف کی اقسام:
قرآن پاک کے مختلف تراجم کا تتبع کرنے سے جو نتیجہ نکلتا
ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کے ترجمے میں اختلافات تین وجوہات کے باعث پیدا ہوئے ہیں ۔
۱۔ کسی
حرف کے صحیح معنیٰ کی تعیین میں تسامح۔
۲۔ کسی لفظ یا
آیت کے ترجمہ کے پیرایے میں افراط یا تفریط ادب
۳۔ کسی آیت سے
اپنے مسلکی معنیٰ حاصل کرنے کی کوشش
پہلی قسم: کسی حرف کے صحیح معنیٰ کی تعیین میں تسامح۔
اگر ہم صرف اردو ترجمہ ٔقرآن کرنے والوں کی
لسٹ بنائیں تو اس کی تعداد ویکیپیڈیا کے مطابق صرف انیسویں اور بیسویں صدی کے
ترجموں کی تعد اد سو کے قریب پہنچ جاتی ہے۔[3]
اگرصرف مشہور ترجموں کولیں تو مشہور ترجموں کے مترجمین عام طور پر اپنے مسلک کی
اہم اور مخصوص اہل علم شخصیات ہیں جو کہ یقینا ترجمے سے متعلقہ علوم پر مکمل دسترس
رکھنے والے ہیں ، اس کے باوجود ان سے بہت سے مقامات پر تسامح ہونا ممکن بھی ہے اور
ہوا بھی ہے ۔
غیرمتعصبانہ نقد کی مثال:
اس
سلسلے میں ماہنامہ الشریعہ اکادمی میں
فاضل محقق ڈاکٹر محی الدین غازی کی
قسط وار قرآن کے مختلف ترجموں میں تقابل اور نقد چل رہا ہے۔جو کہ بہت مفید ہے اور
اس میں انہوں نے گرائمر کے قوانین اور لغوی تشریحات کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف تراجم کا تقابل کیا ہے ۔ اگرچہ وہ بھی
ایک بشر ہیں اور انکی رائے بھی ایک شخصی رائے ہے اور اس پر بھی نقد ہوسکتا ہے ۔ مگر
ان کے نقد کی خاص بات یہ ہے کہ وہ کسی طرح کی فرقہ وارانہ سوچ کے بغیر خالص عربی
ادب کو سامنے رکھتے ہوئے موازنہ کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ نومبر ۲۰۱۴ سے چل رہا ہے
اور اس سلسلے کی ۸۴ نمبر قسط جنوری ۲۰۲۲ ء کے شمارے میں شائع ہوچکی ہے ۔ اس پہلی
قسط کے کچھ اقتباس یہاں نقل کیاجاتےہیں جن میں ڈاکٹر صاحب صحیح ترجمے کی تعیین میں
ہونے والی غلطی کی وجوہات کی نشاندہی کررہے ہیں :۔
"(۱) کبھی ضمیر
غائب کا مرجع متعین کرنے میں غلطی ہوجاتی ہے:
﴿أُولَئِكَ
لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ﴾ [4]
متعدد مترجمین نے اس آیت کا یوں ترجمہ کیا:
’’ان کے لئے سدا بہار جنتیں ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی‘‘۔
اس ترجمہ کی رو سے جنتوں کے یا بعض تراجم میں
جنتوں میں ان کے محلوں کے نیچے نہریں بہنے کا بیان ہے۔ جبکہ آیت میں اہل جنت کے نیچے
نہریں بہنے کی بات ہے، کیونکہ تَحْتِہِمُ میں ضمیر ’ھم‘ ہے جو اہل جنت کی طرف ہی
لوٹ سکتی ہے، اگر ضمیر ’ھا‘ ہوتی تو جنتوں کی طرف لوٹتی۔
شاہ عبدالقادر کے ترجمہ میں اس کا خیال کیا
گیا ہے، ان کا ترجمہ ہے: ’’ایسوں کو باغ ہیں بسنے کے، بہتی ان کے نیچے نہریں‘‘۔
جوناگڑھی نے بھی ایسا ہی ترجمہ کیا : ’’ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی‘‘۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن میں مذکورہ ذیل
دو اور مقامات پر بھی جنتیوں کے نیچے نہریں بہنے کا ذکر ہے ، اور وہاں جنت کا ذکر
نہیں صرف جنتیوں کا ذکر ہے، یعنی قطعی طور سے اہل جنت کے نیچے نہریں بہنا مراد ہے:
﴿إِنَّ
الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ
تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴾ [5]
﴿وَنَزَعْنَا
مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ﴾ [6]
اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جنت کے نیچے نہریں
بہنے کا مطلب سمجھ میں آتا ہے، گرچہ اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ جنت اوپر ہوگی اور
نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنت میں درختوں کے نیچے نہریں
بہہ رہی ہوں گی، اہل جنت کے نیچے نہریں بہنے سے کیا مراد ہے، اس کا جواب یہ دیا
جاسکتا ہے کہ جس طرح قرآن کے بعض مقامات پر جنت کے نیچے نہریں بہنے کا ذکر کیا گیا
اور اس سے جنت کے حسن وجمال کو ظاہر کیا گیا، اسی طرح اہل جنت کی خوشحالی ظاہر
کرنے کے لئے مذکورہ مقامات پر خود ان جنتیوں کے نیچے نہریں بہنے کا ذکر کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ فرعون نے جب موسی کے مقابلے میں
اپنی خوشحالی اور اقتدار میں اپنی برتری ظاہر کرنا چاہی تو یہی بات کہی۔ اس نے
کہا:
﴿وَهَذِهِ
الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي﴾ [7]۔
(الزخرف:۵۱)
(اور یہ نہریں میرے نیچے بہتی ہیں۔)
(۲) کبھی نحو کے کسی
قاعدے کو برتنے میں غلطی ہوجاتی ہے:
﴿قُلْ
لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ
تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ﴾ [8]
اس کا ترجمہ عام طور سے مترجمین نے یوں کیا
ہے : ’’اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لئے سمندر روشنائی بن جائے تو میرے
رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائے گا، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اس
کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘۔
اس میں زمانہ مستقبل کا ترجمہ کیا گیا ہے،
حالانکہ لو شرطیہ کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ وہ زمانہ ماضی کے لئے آتاہے،خواہ
جملہ شرط میں فعل ماضی ہو یا فعل مضارع ہو۔
قاعدہ کی رو سے درست ترجمہ یوں ہوگا: ’’اگر
میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لئے سمندر روشنائی بن جاتا تو میرے رب کی
نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتا، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اس کے مانند
اور سمندر ملادیتے‘‘۔[9]"
تھوڑا ساآگے کی ایک اور مثال عرض ہے:۔
﴿إِنَّ
اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ
يَشَاءُ ﴾[10]
﴿إِنَّ
اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ
يَشَاءُ ﴾[11]
بعض مترجمین نے ترجمہ کیا : ’’اللہ بس شرک ہی
کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہتا ہے معاف
کردیتا ہے‘‘۔
شاہ عبدالقادر کا ترجمہ ہے: ’’اور بخشتا ہے
اس سے نیچے جس کو چاہے‘‘۔
دون کا ترجمہ اس کے سوا بھی ہوسکتا ہے، اور
اس سے کمتر بھی ہوسکتا ہے، دوسری نصوص کی روشنی میں کم تر کا ترجمہ درست ہے۔
صحیح ترجمہ یہ ہوگا: ’’اللہ شرک کو معاف نہیں
کرتا۔ اس سے کمتر درجہ کے جوگناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے‘‘۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض گناہ شرک سے
بھی بڑے ہوتے ہیں، جیسے خدا کے حضور کبر شرک سے بڑا گناہ ہے، ابلیس کا گناہ شرک نہیں
ہے، اس کے لئے قرآن مجید میں استکبر کا لفظ آیا ہے۔
﴿فَجَعَلَهُمْ
كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ ﴾ [12]۔ (الفیل:۵)
’’مَّأْکُول‘‘کے دو معنی ہوسکتے ہیں، کھائی
ہوئی چیز، یا کھانے کی چیز۔
عام طور سے مترجمین نے آیت کے اس ٹکڑے کا
ترجمہ کیا ہے: ’’کھائے ہوئے بھس کی طرح‘‘۔
ترجمہ بالا پر اشکال یہ آتا ہے کہ کھائے
ہوئے بھس سے کیا مراد ہے،کھانے کے بعد تو بھس گوبر بن جاتا ہے، سیاق کے لحاظ سے
مناسب یہ ہے کہ یہاں ماکول کا ترجمہ ’’کھایا ہوا‘‘ کے بجائے ’’کھانے کے قابل‘‘ کیا
جائے، ترجمہ ہوگا : ’’کھانے کا بھس بناکر رکھ دیا‘‘۔محمدفاروق خان کے ہندی ترجمہ میں
ہے: ’’جیسے کھانے کا بھوسا ہو‘‘۔'
(۵) دو ملتے جلتے الفاظ کے درمیان باریک فرق میں تساہل بھی
غلطی کا سبب بن جاتا ہے:
﴿ثُمَّ
لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ﴾ [13]
’’النَّعِیْمِ‘‘ کا ترجمہ عام طور سے لوگ
نعمت کردیتے ہیں، حالانکہ نعمت اور نعیم میں فرق ہے۔ نعمت کے لئے عربی میں ’’نعمۃ‘‘
آتا ہے جس کا مطلب ’’اللہ کی بخشی ہوئی چیزیں‘‘ ہوتا ہے، جبکہ نعیم کا مطلب ہوتا
ہے ’’آرام وآسائش‘‘۔ بخشش اور آسائش میں جو فرق ہے، وہ زبان کا ذوق رکھنے والے
آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
شاہ عبدالقادر نے اس آیت میں آرام ترجمہ کیا
ہے، سورہ یونس آیت ۹؍ میں بھی جنات النعیم کا ترجمہ ’’باغوں میں آرام کے‘‘ کیا ہے۔لیکن
مائدہ ۶۵؍ میں جنات النعیم کا ترجمہ نعمت کے باغوں کیا ہے۔
سورہ تکاثر میں ’’نعیم‘‘ سے مراد آسائش ہے
اس کی تائید سورہ انبیاء کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
﴿لَا
تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تُسْأَلُونَ ﴾
[14]
جو مفہوم ’’مَا أُتْرِفْتُمْ فِیْہِ‘‘کا ہے
تقریبا وہی نعیم کا بھی ہے۔ یعنی آرام وآسائش کی وہ حالت جو اس دنیا میں حاصل رہی۔
﴿فَأَمَّا
الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ
رَبِّي أَكْرَمَنِ﴾ [15]
آیت مذکورہ میں’’َنَعَّمَہُ‘‘ کا لفظ آیا ہے
جس- کا ترجمہ عموماََ نعمت دینے سے کیا گیا ہے، دراصل نعم نعیم کے لئے ہوتا ہے،
اور نعمت کے لئے انعم ہوتا ہے، آیت مذکورہ میں نعمہ کا ترجمہ آسائش دینے سے کیا
جائے گا۔[16]"
ڈاکٹر محی الدین
غازی کی رائے پر نقد:
باوجویکہ ان کا
کام کسی بھی تعصب کے بغیرجاری ہے ، مگر انسانی کام میں غلطی کا احتمال ہمیشہ رہتا
ہے اور ان کی رائے سے بھی اختلاف کیا
جاسکتا ہے ، مثلا چار نمبر میں دو معنی ہونے کیوجہ سے غلطی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے
ہیں:" مناسب یہ ہے کہ یہاں ماکول کا ترجمہ ’’کھایا ہوا‘‘ کے بجائے ’’کھانے کے
قابل‘‘ کیا جائے، ترجمہ ہوگا : ’’کھانے کا بھس بناکر رکھ دیا‘‘۔"
مگر بظاہر ان کی
یہ رائے درست نہیں کیونکہ کھانے کا بھس نہ ہونا
بظاہر اس طرح سمجھا جاسکتا ہے ، کہ اگر وہ کھانے کا بھس ہوتا اور اس کو
یقینا قریش کے جانور کھاتے اور وہ اسے بطور فخر بتاتے ۔ اور مزید یہ کہ کھائے ہوئے
کا صرف یہی مطلب نہیں ہوتا کہ گوبر بن گیا ہو، اگر جانور ذبح کریں تو اس کے پیٹ سے
جو کریہہ الشکل قسم کا کھانا اپنی اصلی اور گلی ہوئی شکل کے درمیان ہوتا ہے ، اسے
بھی کھایا ہوا بھس کہا جاتا ہے۔اور یہاں بظاہر وہی مراد ہونا چاہئیے۔
متعصبانہ نقد کی مثالیں:
ا گرچہ جو نقد یہاں ذکر کئے جارہے ہیں ان میں
بہت سارے نقد درست ہوسکتے بھی ہیں اور ہیں بھی ،
مگر چونکہ ان کے ذکرکامقصد اپنی پارٹی کو اوپر
کرنا ہے اور دوسرے کو نیچا دکھانا ہے ،تو ایسے
درست
نقد کو بھی قبول عام حاصل نہیں ہوسکتا۔اس کے
علاوہ فنی جرح ایک دوسرے کے تراجم پر ہرفرقے کی موجود ہے ۔ "مشتے از خروارے
" کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت
ہیں۔ یہ آئندہ پیش کی جانی والی عبارتیں مکمل طورپر نقل شدہ ہیں ۔
مولانا احمدرضا خان
بریلوی صاحب کے ترجمے پر نقد کے لئے بریلوی علماء کی آراء کا استعمال
مولانا احمدرضاخان بریلوی صاحب کے ترجمے پر
بریلوی علماء کے حوالے سے رد کی مثال:
(6)
وَمَابِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ
فَاِلَیْہِ تَجْئَرُوْنَ[17]
ترجمہ: اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی
طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی طرف پناہ لے جاتے ہو‘‘۔[18]
قارئین کرام ’’تجئرون‘‘ کی لغوی تحقیق
ملاحظہ فرمائیں:
پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:
’’تجئرون، جائر جؤار ای صاح یعنی چیخنا
چلانا، جئر الرجل الی اللہ ای تضرع بالدعا ء، تجئرون کا معنی رونا گڑگڑنا‘‘۔[19]
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
’’ اس آیت میں فریاد کے لیے لفظ ہے تجئرون۔
اس کا معنی ہے چلا کر فریا د کرنا ‘‘۔[20]
ابو الحسنات قادری صاحب لکھتے ہیں:
’’تجئرون جؤار سے ہے اور جؤار اصل میں صیاح
الوحش یعنی جنگلی جانورکی چیخ کو کہتے ہیں اس کا استعمال محاورہ عرب میں رفع صوت
بالدعا میں ہوگیا جس کا حاصل معنی تضرع و زاری کے ہوگئے‘‘۔[21]
قارئین کرام ! ان تحقیقات سے معلوم ہوا کہ
کنز الایمان والا ترجمہ ’’پناہ لیتے ہو‘‘ کسی طرح بھی درست نہیں اصل میں خان صاحب
کو ایک دھوکا لگا ہے اور وہ یہ کہ وہ سمجھے کہ شاید اس لفظ کا معنی بھی وہی ہے جو
’’اجار، یجیر‘‘ کا ہے اس لیے پناہ لینے کا معنی کردیا جوکہ ہر طرح سے غلط ہے کنز
الایمان کے گن گانے والوں کو باہوش ملاحظہ فرمانا چاہیے کہ ان کے اپنے ہی علماء
خان صاحب کی تحقیق کو رد کررہے ہیں۔[22]
بریلوی علمائے کرام
کی طرف سے دوسرے تراجم پرنقد:
اسی طرح بریلوی علمائے کرام نے مولانا
احمدرضاخان بریلوی صاحب کی تفسیر کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے دیوبندی علمائے کرام
ودیگر کے ساتھ ایک موازنہ کیا ہے ، جس کی
ایک مثال پیش خدمت ہے:
"دغا با زی ، فریب ،دھوکہ، اللہ کی شان
کے لائق نہیں
﴿إِنَّ
الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ﴾ [23]
منافقیں دغا بازی کرتے ھیں اللہ سے اور اللہ
بھی ان کو دغا دے گا ۔ ( ترجمہ عاشق الٰہی میر ٹھی ، شاہ عبد القادر صاحب، مولانا
محمود الحسن صاحب)
اور اللہ فریب دینے والا ھے ان کو -(شاہ رفیع
الدین صاحب)
خدا ان ھی کو دھوکہ دے رھا ھے۔ ( ڈپٹی نذیر
احمد صاحب )
اللہ انھیں کو دھوکہ میں ڈالنے والا ھے۔[24]
( فتح محمد صا حب جا لندھری )
وہ ان کو فریب دے رہا ہے۔ [25](
نواب وحید الزّمان غیر مقلّد و مرزا حیرت غیر مقلّد دہلوی و سیٌد عرفان علی شیعہ )
دغا بازی، فریب، دھوکہ، کسی طرح اللہ کی شان
نھیں ھے۔
اعلٰی حضرت نے تفسیری ترجمہ فرمایا،
بے شک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب
دیا چاھتے ھیں اور وھی ان کو غا فل کرکے مارے گا۔[26]
تفا سیر قرآن کے مطالعے بعد اندازہ ھوتا ھے
کہ اس ترجمہ میں آیت کا مکمل مفہوم نہایت محتاط طریقہ پر بیان کیا گیا ھے۔ یہ لفظی
ترجمہ نہیں بلکہ تفسیری ترجمہ ہے۔"[27]
اہلحدیث علماء کا
مولانا محمود الحسن دیوبندی صاحب کے ترجمہ پر نقد:
اسی طرح اہلحدیث علمائے کرام کی طرف سےبھی اسی
طرح مولانامحمودالحسن دیوبندی صاحب اور مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب کے تراجم
پر مختلف تنقیدیں موجود ہیں :
یہ اوپر سورہ بقرہ کی آیت 229 اور 230 ہیں
، یہ ترجمہ ہے مولانا محمود الحسن صاحب کا جو دیوبندیوں کے شیخ الہند ہیں ،ان دونوں
آیات کے ترجمہ میں براہ راست معنوی تحریف کی گئی ہے۔پہلی آیت میں انہوں نے ؛
الطلاق مرتان؛ کا ترجمہ کیاہے ؛طلاق رجعی ہے دوبار تک ؛ اس میں دو لفظ ؛رجعی؛ اور؛
تک؛ آیت کے کسی لفظ کا ترجمہ نہیں ہیں، قوسین لگاتے تو پتہ چلتا کہ یہ مترجم کے
اپنے الفاظ ہیں، قوسین نہیں لگائے تو یہ براہ راست قرآن کا ترجمہ ہوگیا جبکہ قرآن
میں ایسا کوئی لفظ نہیں، قرآن نے تو سرے سے رجعی کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا، رجعی
کا لفظ تو ایجاد ہی بعد کی ہے۔ یہ کتنی بڑی جسارت ہے کہ اپنے الفاظ قرآن میں ڈال دیے،
تحریف اور کس کو کہتے ہیں، ان سے تو بہتر وہ مترجمین رہے جنہوں نے کم از کم قوسین
ڈال کر یہ تو واضح کردیا کہ یہ ہم اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں، لیکن شیخ الہند صاحب
نے تو حد ہی کردی کہ اپنے الفاظ کو قرآن بناکر پیش کردیا۔
آگے آیت ۱۳۰ میں دیکھیں ؛ فان طلقھا
؛ کا ترجمہ کیاہے ؛پھراگرعورت کو طلاق دی یعنی تیسری بار؛ یہاں بھی انہوں نے وہی
کام کیا جواوپرکی آیت میں کیا ہے، ؛ یعنی تیسری بار؛ یہ قرآن کے کن الفاظ کا ترجمہ
ہے ؟ یہاں بھی یہ واضح تحریف ہے۔
دیوبندی علماء کی
طرف سے مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب کے ترجمے پرنقد:
اسی طرح دیوبندی علمائے کرام نے مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب کے ترجمے
پرتنقید کی ہے۔
وہ الفاظ جن کے
ترجمے فاضل بریلوی نے نہیں کیے
(1) وَاُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیٓ اَرْضَعْنَکُمْ[28]
ترجمہ:اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا[29]
ارضعنکم میں کم
ضمیر کا ترجمہ نہیں کیا۔
(2) فَلَوْشَآئَ لَهَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ[30]
ترجمہ:تو وہ چاہتا تو سب کو ہدایت فرماتا۔[31]
لھدکم میں کم ضمیر
کا ترجمہ نہیں کیا۔
(3) اُدْخُلُوْ الْجَنَّۃَ لاَ خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلاَ
اَنْتُمْ تَحْزُنُوْنَ[32]
ترجمہ:ان سے کہا گیا کہ جنت میں جاؤ نہ تم کو اندیشہ نہ کچھ غم۔[33]
انتم کا ترجمہ نہیں
کیا۔
(4) قَالَ الْمَلاَئُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا[34]
ترجمہ:اس کی قوم کے سردار بولے۔[35]
کفروا کا ترجمہ
نہیں کیا۔
(5) وَاذَکُرُوْآ اِذْجَعَلَکُمْ خلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ
عَادٍ[36]
ترجمہ: اور یاد کرو جب تم کو عاد کا جانشین کیا۔
من بعد کا ترجمہ
نہیں کیا۔[37]
اہلحدیث علماء کا مولانا طاہر القادری صاحب کے ترجمہ پر نقد:
اسی طرح اہلحدیث علماء کی بریلویوں کے مختلف
تراجم پر نقد موجو د ہیں ۔ ذیل میں ڈاکٹرطاہر القادری کے تراجم پر کیا جانے والا
نقد پیش خدمت ہے۔:
پروفیسر صاحب کئی ایک مقامات پر قرآن مجید
کا ایسا ترجمہ یا تفسیر بیان کی ہے جو قرآنِ مجید کے ظاہر یا اہل السنّۃ والجماعۃ
کے اُصولِ تفسیر کے مطابق نہیں ہے،
اسی طرح اُنہوں نے سورة نجم کی آیت ﴿ وَ
النَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ ﴾ کا ترجمہ کیا ہے:
قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ) کی جب وہ (چشم
زدن میں شب معراج اوپر جا کر ) نیچے اُترے۔[38]
سورة زمر کی آیت ﴿ اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ
اِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَٞ﴾ کاترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(اے حبیب مکرم!) بے شک آپ کو (تو) موت (صرف
ذائقہ چکھنے کے لئے) آنی ہے اور وہ یقینًا (دائمی ہلاکت کے لیے) مرد ہ ہو جائیں
گے۔ (پھر دونوں موتوں کا فرق دیکھنے والا ہوگا) [39]
سورہ قصص کی آیت مبارکہ ﴿ اِنَّكَ لَا
تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ
اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ﴾ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (ہدایت پر لانا)
چاہتے ہیں، اسے صاحبِ ہدایت آپ خود نہیں بناتے، بلکہ (یوں ہوتا ہے کہ)جسے(آپ چاہتے
ہیں اسی کو) اللہ چاہتا ہے (اور آپ کے ذریعے) صاحب ہدایت بنا دیتا ہے اور وہ راہِ
ہدایت کی پہچان رکھنے والوں سے خوب واقف ہے۔ (یعنی جو لوگ آپ کی چاہت کی قدر
پہچانتے ہیں، وہی ہدایت سے نوازے جاتے ہیں) [40]
سورہ مریم کی آیت ﴿ اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ
يٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ وَ لَا يُغْنِيْ عَنْكَ
شَيْـًٔا ﴾ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب اُنہوں نے اپنے باپ(یعنی چچا آزر سے جس
نے آپ کے والد تارخ کے انتقال کے بعد آپ کو پالا تھا) سے کہا: اے میرے باپ! تم
ان(بتوں) کی پرستش کیوں کرتے ہو جو نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور تم سے کوئی(تکلیف
دہ) چیز دور کر سکتے ہیں۔[41]
اسی طرح پروفیسر صاحب نے سورةرحمن کی آیت ﴿
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِۙ﴾ میں دو دریاوٴں کی تفسیر حضرت حسن
اور حسین سے کی ہے۔ اپنی کتاب ’ذبح عظیم‘ میں سورة صافات کی آیت ﴿ وَ فَدَيْنٰهُ
بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ﴾ میں ’ذبح عظیم‘ سے مراد حضرت حسین کو لیا ہے۔
قرآنِ مجید میں شرک کی تردید میں جس قدر آیات
نقل ہوئی ہیں، پروفیسر صاحب اُنہیں معبودانِ باطلہ یعنی مشرکین کے بتوں اور طواغیت
کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں اور ان آیات کے عمومی مفہوم کے قائل نہیں ہیں۔ اپنے ترجمہ
’عرفان القرآن‘ میں جا بجا اُنہوں نے ایسی آیات کے ترجمہ میں ’بتوں‘ کا لفظ محذوف
نکالا ہے۔ پس پروفیسر صاحب کے بقول قرآن نے جس شرک کی تردید کی ہے، وہ شرک مسلمان
معاشروں میں نہیں پایا جاتاہے لہٰذا معاصر مشرکانہ اعمال وفعال پر قرآنی آیات کی
تطبیق درست طرزِعمل نہیں ہے۔[42]
قادیانیوں کا مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھاتے
ہوئےسب تراجم پر نقد
"کذلک
قال الذین لایعلمون مثل قولهم" کے
مصداق قادیانیوں نے بھی کچھ اسی طرح کا
تبصرہ کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
"اس نقطہ ٔنظر سے جب جماعت احمدیہ
کےشائع کردہ تراجم قرآن کے علاوہ دیگر تراجم پر نگاہ ڈالی تو بڑی افسوسناک صورت
حال سامنے آئی۔ برصغیر میں سب سے ابتدائی تراجم قرآن جو محدثین دہلی رحمھم اللّٰہ
(خانوادۂ شاہ ولی اللہؒ )نے کیے تھے وہ بھی علماء کے سخت فتاویٰ کی زد میں رہے کیونکہ
اس دَور کے علماء کے نزدیک قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ہی جائز نہیں تھا۔ شیعہ حضرات
کی طرف سےمحدثین دہلی کے تراجم قرآن کا ردّ کیا جانا تو سمجھ میں آتا ہےکیونکہ
اختلاف عقائد کے علاوہ شیعہ فرقہ کے ردّ میں ان بزرگان کی بعض کتب اور تحریرات سند
کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم افسوسناک بات تو یہ تھی کہ سنی بریلوی فرقہ کے بعض علماء
بھی ان بزرگانِ دین کی اور ان کے تراجم کی دبے لفظوں میں تنقیص کرتے نظر آتے ہیں۔"[43]
دوسری قسم : کسی لفظ یا آیت کے ترجمہ کے پیرایے میں افراط یا تفریط ادب
دوسری قسم میں وہ مخصوص آیات جمع کی ہیں جن
کے بارے میں بعض لوگوں کے خیال میں بے
ادبی کی گئی ہے جبکہ دوسری طرف کے لوگوں کے خیال میں قرآن کریم کا صحیح ترجمہ
نہیں کیاگیا۔ اس سلسلے میں چھپنے والے مختلف فرقوں کے پمفلٹ اور جوابی پمفلٹوں کی تفصیل کافی طویل ہے ۔ ہمارا مقصد کسی بھی ایک جانب کی طرف داری کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مثال پیش
کرنا ہے۔
﴿وَيَمْكُرُونَ
وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (٣٠) ﴾[44]
مولانا محمود الحسن
دیوبندی صاحب کا ترجمہ :
وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا
تھا اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ھے.[45]
مولانا اشرف علی تھانوی
صاحب کاترجمہ:
اور
وہ تو اپنی تدبیر کر رھے تھے اورا اللہ( میاں) اپنی تدبیر کر رھے تھے اور سب سے
مستحکم تدبیر والا االلہ ھے.[46]
ڈپٹی نذیر احمد صاحب کا
ترجمہ:
اور حال یہ ھے کہ کافر داؤ کر رھے تھے اور اللہ
اپنا داؤ کر رھا تھا اور اللہ سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ھے.
مولانا ابوالاعلی ٰ مودودی
صاحب کا ترجمہ:
وہ
اپنی چالیں چل رھے تھے اور اللہ اپنی چال چل رھا تھا، اللہ سب سے بہتر چال چلنے
والا ھے.[47]
مولانا احمد رضا خان
بریلوی صاحب کا ترجمہ:
اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی
خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ھے.
﴿اللَّهُ
يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (١٥)﴾ [48]
مولاناشاہ رفیع الدین
صاحب کا ترجمہ:
ا اللہ ٹھٹھا کرتا ھے ان سے اور کھینچتا ھے
ان کو بیچ سرکشی ان کی کے بہکے ھیں.
مولاناعاشق الٰہی
میرٹھی صاحب کاترجمہ:
االلہ ھنسی کرتا ھے ان کے ساتھ اور ان کو
ڈھیل دیتا ھے کہ اپنی سرکشی میں بہکے پھریں.
مولانا ابوالاعلی ٰ مودودی
صاحب کا ترجمہ:
االلہ ان سے مذاق کر رھا ھے، وہ ان کی رسی
دراز کیئے جاتا ھے اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ھیں[49].
مولانا محمدجونا گڑھی
صاحب کاترجمہ:
ا اللہ بھی ان سے مذاق کرتا ھے اور انہیں ان
کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ھے.
مولانا محمود الحسن
دیوبندی صاحب کا ترجمہ :
جبکہ اللہ مذاق کر رھا ھے ان سے کہ مہلت
دیئے جا رھا ھے انہیں، کہ وہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹک رھے ھیں. [50]
مولاناامین احسن اصلاحی
صاحب کا ترجمہ:
ا اللہ ان سے مذاق کر رھا ھے اور ان کو ان
کی سرکشی میں ڈھیل دیئے جا رھا ھے یہ بھٹکتے پھر رھے ھیں.
مولانا احمد رضا خان
بریلوی صاحب کا ترجمہ:
اللہ ان سے استہزاء فرماتا ھے (جیسا کہ اس
کی شان کے لائق ھے) اور انہیں ڈھیل دیتا ھے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رھیں.[51]
﴿إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا
وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (٨)﴾ [52]
مولانا ابوالاعلی ٰ مودودی
صاحب کا ترجمہ:
دونوں ھمارے والد کو ھم سب سے زیادہ محبوب
ھیں، حالانکہ ھم ایک پورا جتھا ھیں۔ سچی بات یہ ھے کہ ھمارے اباجان بالکل ھی بہک
گئے ھیں۔[53]
مولاناامین احسن اصلاحی
صاحب کا ترجمہ:
(خیال کرو) جب انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا
بھائی ھمارے باپ کو ھم سے زیادہ پیارے ھیں. حالانکہ ھم ایک پورا جتھا ھیں. بے شک
ھمارا باپ ایک کھلی ھوئی غلطی میں مبتلا ھے.
مولاناعاشق الٰہی میرٹھی صاحب
کاترجمہ:
جب وہ (آپس میں) کہنے لگے کہ یوسف اور اس کا
بھائی (بنیامین) زیادہ پیارا ھے ھمارے باپ کو ھم سے، حالانکہ ھم قوت کے لوگ ھیں،
بے شک ھمارا باپ صریح غلطی میں ھے.
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب
کاترجمہ:
وہ وقت قابل ذکر ھے جبکہ ان کے بھائیوں نے
گفتگو کی کہ یوسف اور ان کا بھائی ھمارے باپ کو ھم سے زیادہ پیارے ھیں، حالانکہ ھم
ایک جماعت کی جماعت ھیں۔ واقعی ھمارے باپ (اس مقدمہ میں) کھلی غلطی میں ھیں. [54]
مولانا محمدجونا گڑھی صاحب کاترجمہ:
جب انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ
نسبت ھمارے باپ کو بہت زیادہ پیارے ھیں. حالانکہ ھم (طاقتور) جماعت ھیں، کوئی شک
نہیں کہ ھمارے ابا صریح غلطی میں ھیں.
مولانا احمد رضا خان
بریلوی صاحب کا ترجمہ:
جب بولے کہ ضرور یوسف اور اس کا بھائی ھمارے
باپ کو ھم سے زیادہ پیارے ھیں اور ھم ایک جماعت ھیں، بےشک ھمارے باپ صراحتاً ان کی
محبت میں ڈوبے ھوئے ھیں.
﴿مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ﴾ [55]
مولانا ابوالاعلی ٰ مودودی
صاحب کا ترجمہ:
تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ھوتی ھے
اور ایمان کیا ھوتا ھے. [56]
ڈپٹی نذیر احمد صاحب کا
ترجمہ:
تم
نہیں جانتے تھے کہ کتاب اللہ کیا چیز ھے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کس کو کہتے
ھیں.
مولانا اشرف علی تھانوی
صاحب کاترجمہ:
آپ
کو نہ یہ خبر تھی کہ کتاب اللہ کیا چیز ھے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان کا انتہائی
کمال کیا چیز ھے [57]
مولاناامین احسن اصلاحی
صاحب کا ترجمہ:
نہ
تم یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ھے اور نہ جانتے تھے کہ ایمان کیا ھے.
مولانا احمد رضا خان
بریلوی صاحب کا ترجمہ:
اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکام
شرع کی تفصیل. [58]
﴿وَلِلَّهِ
الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ
اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (١١٥)﴾ [59]
مولانا ابوالاعلی ٰ مودودی
صاحب کا ترجمہ:
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ھیں، جس طرف بھی تم رخ
کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ھے. اللہ
بڑی وسعت والا ھے اور سب کچھ جاننے والا ھے. [60]
مولانا اشرف علی تھانوی
صاحب کاترجمہ:
اور
اللہ ھی کی مملوک ھیں (سب سمتیں) مشرق بھی اور مغرب بھی کیونکہ تم لوگ جس طرف منہ
کرو ادھر (ھی) اللہ تعالٰی کا رخ ھے کیونکہ اللہ تعالٰی (تمام جہات کو) محیط ھیں،
کامل العلم ھیں. [61]
مولانا محمدجونا گڑھی
صاحب کاترجمہ:
اور
مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ھی ھے۔ تم جدھر بھی منہ کرو اور ادھر ھی اللہ کا منہ
ھے، اللہ تعالٰی کشادگی اور وسعت والا بڑے علم والا ھے.
مولاناعاشق الٰہی
میرٹھی صاحب کاترجمہ:
اور
اللہ ھی کا ھے پورب اور پچھم سو جس طرف تم منہ کرو ادھر ھی اللہ کا سامنا ھے، بے
شک اللہ بڑی گنجائش والا خبردار ھے.
نواب وحید الزماں خان
صاحب کاترجمہ:
اور
مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ھی ھے پس جدھر کو منہ کرو پس وھی ھے منہ اللہ کا۔ اللہ
کا چہرہ ھے بے شک وہ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ھے.
مولانا احمد رضا خان
بریلوی صاحب کا ترجمہ:
اور پورب و پچھم سب اللہ ھی کا ھے تو تم
جدھر منہ کرو ادھر وجہ اللہ ھے (خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ھے) بے شک اللہ وسعت
والا علم والا ھے[62].
﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى (٧) ﴾ [63]
مولاناشاہ رفیع الدین
صاحب کا ترجمہ:
:* اور پایا تجھ کو راہ بُھولا پس راہ
دکھائی۔
مولانا عبدالماجد دریا
بادی صاحب کا ترجمہ:
اور
آپ کو بے خبر پایا سو رستہ بتایا.
ڈپٹی نذیر احمد صاحب کا
ترجمہ:
اور تم کو دیکھا کہ راہ حق کی تلاش میں
بھٹکے بھٹکے پھر رھے ھو تو تم کو دین اسلام کا سیدھا راستہ دکھایا.
* مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کاترجمہ:
اور اللہ تعالٰی نے آپ کو شریعت سے بے خبر
پایا سو آپ کو شریعت کا راستہ بتلا دیا۔[64]
مولانا ابوالاعلی ٰ مودودی
صاحب کا ترجمہ:
اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ھدایت
بخشی. [65]
مولانا محمدجونا گڑھی
صاحب کاترجمہ:
اور تجھے راہ بھولا پا کر ھدایت نہیں دی؟
مولاناعاشق الٰہی
میرٹھی صاحب کاترجمہ:
اور
تجھے پایا بھٹکتا تو رستہ دکھا دیا.
مولانا احمد رضا خان
بریلوی صاحب کا ترجمہ:
اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو
اپنی راہ دی. [66]
ان تمام تراجم میں بریلوی مکتب فکر کا دعوی
ہے کہ باقی تمام مترجمین نے سوء ادب الفاظ
استعمال کئے ہیں جبکہ مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب نے اعلیٰ آداب کوسامنے
رکھتے ہوئے ترجمہ کیاہے۔ یقینا ہر فرقے نے اپنے اعلیٰ حضرات کے خلاف ہونے والے
اعتراضات کے تفصیلی جواب دیئے ہیں۔ ایک
سادہ سا جواب ان حضرات کا یہ ہے کہ جب عربی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو
کسی خاص انداز سے خطاب کیا ہے تو ہم اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں ۔ ادب احترام کے دائرےکو جب ہرکوئی بڑھاتا جائے
تو اس کی انتہاکہیں نہیں رہےگی۔بعض باتیں جو کہ بے ادبی نہ بھی ہوں وہ ہمیں بے
ادبی لگنے لگ جائیں گی۔ جیسا کہ ہمارے
ہاں ادب احترام میں بعض لوگوں نے سورۂ
لہب کی تلاوت کو ناجائز قرار دیا ہوا ہے کہ اس سے آپ ﷺ کے چچا کی مذمت اور ہجو ہوتی ہے ، جس سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوگی ۔[67] جب
اللہ تعالیٰ نے سورۂ لہب تلاوت کے لئے نازل کی تو اس کا انکار کیسے ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف ان حضرات نے خود مولانا احمد رضا خان بریلوی کے ترجمہ میں سے
گستاخانہ انداز نقل کیا ہے۔ جس میں کچھ
جگہوں پر موازنہ کیا ہے ۔
مَا
وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی[68]
ترجمہ:تمہیں
تمہارے رب نے نہ چھوڑا اور نہ مکروہ جانا۔
’’مکروہ‘‘ کا لفظ اگرچہ خان صاحب نے نفی کے
ساتھ لکھا ہے لیکن نفی کے ساتھ بھی اس قسم کے الفاظ آپ ﷺ کے شایان شان نہیں۔ اس
قسم کے الفاظ میں آپ علیہ السلام کے لیے حوصلہ افزائی تصور نہیں ہوسکتی۔حضرت شیخ
الہند رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمہ کیا ’’نہ وہ ناخوش ہوا‘‘۔
اَلَّذِیْ
اَنْقَضَ ظَهْرَکَ[69]
ترجمہ:جس نے
تمہاری پیٹھ توڑ دی[70]۔ جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:’’جس نے تیری کمر کو جھکادیا تھا‘‘
کئی مقامات پر وہی عیب اور بے ادبی جو بریلوی
حضرات نے دوسرے ترجموں پر لگائے ہیں خو د کنزالایمان میں ان کی موجودگی ثابت کی ہے :چند مثالیں
ملاحظہ ہوں
(1) تَعْرِفُهُمْ
بِسِیْمَاهُمْ[71]
ترجمہ:تُو انہیں
ان کی صورت سے پہچان لے گا۔[72]
قَالَ
فَعَلْتُهَا اِذاً وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ[73]
موسی نے
فرمایا میں نے وہ کام کیا جبکہ مجھے راہ کی خبر نہ تھی۔ [74]
اِنَّ
اللّٰہَ لاَیَسْتَحْیِ اَنْ یَّضْرِبَ الخ[75]
ترجمہ:بے شک
اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے ‘‘[76]
تیسری قسم: کسی لفظ یا آیت سے اپنے مسلک کے ثبوت کے لئے مخصوص ترجمہ کرنا
بعض دفعہ مترجم اپنے ترجمے کے ذریعے اپنے مسلکی
مسئلے کو ثابت کرنا چاہ رہا ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے اس کاترجمہ باقی تمام ترجموں سے
مختلف ہوتا ہے ،اس کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:
﴿إِلَّا
أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴾ [77]
مگر یہ کہ تمہیں
ان (کافروں) سے خوف ہو تو پھر (بقصد تقیہ اور بچاؤ) ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں
ہے۔[78]
﴿فَمَا
اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً﴾ [79]
پھر جن عورتوں سے
تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو[80]
ان عورتوں میں سے
جن سے تم متعہ کرو۔ تو ان کی مقررہ اجرتیں ادا کر دو۔[81]
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى
الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ
وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ﴾[82]
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو
اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور
ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو، [83]
اے ایمان والو! جب
نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں اور کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں کو دھوؤ۔
اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔[84]
ایمان والو جب بھی
نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوںکو دھوؤ اور
اپنے سر اور گٹّے تک پیروں کا مسح کرو[85]
﴿قُلْ
لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ﴾ [86]
تم فرمادو میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس
اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں[87]
آپ (ان کافروں
سے) فرما دیجئے کہ میں تم سے (یہ) نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ
میں اَز خود غیب جانتا ہوں [88]،
﴿إِلَّا
مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ
خَلْفِهِ رَصَدًا ﴾[89]
سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو
مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ
اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لئے)
نگہبان مقرر فرما دیتا ہے[90]
﴿قُلْ
إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ﴾ [91]
تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا
ہوں[92]
﴿يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا
وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا﴾ [93]
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک
ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا[94]
﴿إِنَّا
أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا﴾[95]
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا [96]
﴿وَإِنْ
تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (٧)﴾ [97]
اور اگر آپ ذکر
و دعا میں جہر (یعنی آواز بلند) کریں (تو بھی کوئی حرج نہیں) وہ تو سِرّ (یعنی
دلوں کے رازوں) اور اخفی (یعنی سب سے زیادہ مخفی بھیدوں) کو بھی جانتا ہے (تو بلند
التجاؤں کو کیوں نہیں سنے گا)، [98]
اہل حدیث علماء کے
ترجمے کی مثال:
﴿إِنَّ
رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ
ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ﴾ [99]
ترجمہ: بے شک تمہارا رب اللہ ھی ھے جس نے
آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر تخت پر چڑھا.[100]
خلاصۂ کلام:
جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا تھا کہ ہمارے ہاں
تراجم کے اختلاف کو تین قسموں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ اور وہ تینوں قسمیں ہمارے
سامنے تفصیل سے آچکی ہیں ۔ میں نے اپنی طرف سے عمومی طور پر اس پر کوئی تبصرہ
نہیں کیا صرف ترجمے اور آراء ہی نقل کیں ہیں۔اب اگر اصل موضوع اور حل مسئلہ کی
طرف آئیں کہ
"کیا ایک ترجمے
پر اتفاق ہوسکتا ہے؟"
پہلی دوقسموں میں تبدیلی:
تو جہاں تک پہلی دونوں قسموں کے فرق کا مسئلہ
ہے تویقینا اتفاق ہوبھی سکتا ہے ، اور ہر طرف سے بہتری آتی رہتی ہے ۔ پہلی دونوں
قسموں کی حدتک یقینا نئے ترجمے جولکھے جارہے ہیں ، تو ان میں سے اعتراض شدہ
عبارتیں ختم ہورہی ہیں ، اور جدیدترجموں کو بہتر کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
رہی بات پرانے کئے گئے تراجم کی تو ظاہری بات
ہے کسی بھی مترجم کی عبارت کو بعد کے
لوگوں کو تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ مگر پہلے تراجم چونکہ پرانی زبان میں لکھے گئے
ہیں اور ان تراجم کا آج کے دور کے عام قاری کے لئے سمجھنا تقریباًناممکن ہے بلکہ
یہ کہنا بجاہوگا کہ آج کے قاری کے لئے اس ترجمے کے بھی ترجمے کی ضرورت ہے۔
تیسری قسم میں تبدیلی:
جیساکہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اصل مسئلہ
تیسری قسم کی عبارات ہیں ، جہاں پر کوئی خاص فرقہ اپنا خاص موضوع ثابت کرنے کے لئے
سب سے ہٹ کرترجمہ کررہا ہے۔ایسی جگہوں کے لئے درخواست کی جاسکتی ہے ۔ کہ آپ اپنی
بات تفسیر میں ثابت کرلیں ترجمے کو ویسے ہی رہنے دیں۔مگر ہوسکتا ہے یہ بات بھی وجہ
نزاع بن جائے ۔
مسئلہ کاحل :۔
مسئلہ کی نوعیت کچھ یوں ہے کہ آج کے دور کے
مسلمانوں کی مثال اس انسان کی ہے جومعذور ہوگیاہو۔ اب وہ پہلے جیسا انسان بننا
چاہے بھی تو نہیں بن سکتا ۔ اب مسئلہ کا حل یہی ہے کہ وہ جلداز جلد اپنی اس معذوری
کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لے۔ اسی طرح اب
پہلے مسلمانوں کی طرح کا اجتماع تو ہمارا ناممکن بن چکاہے ۔ اب ہمارے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ ہم اس
معذوری کے ساتھ جینا سیکھ لیں ۔
عوامی مقامات پر
دوسروں کی دلآزاری والی بات نہ کریں:۔
ایک
دوسرے کے اختلاف کو ہضم کرناسیکھیں ۔ ایک دوسرے کو چڑانا اور اپنے جیسا مسلمان
بنانے کی کوشش چھوڑدیں ۔ اپنے مسلکی اور فرقہ وارانہ تعلیمات صرف اپنے
شاگردوں کو اپنے مدرسوں میں دیں۔ اگر کوئی اس طرح کا اختلافی مسئلہ پوچھ رہا ہے
تو پبلک میں اسے جواب نہ دیں بلکہ انفرادی طور پر تنہائی میں یا پرسنل گیدرنگ میں
اسے جواب دیں۔ عوام کے سامنے مناظرے اور اپنی حقانیت کے علی الاعلان اور ڈنکے کی
چوٹ پر دعوے کرنا چھوڑدیں ۔
دوسرے کی رائے کو
بھی صحیح ہونے کا امکان دیں:۔
جس طرح قرن اول میں مسلمان مختلف فقہوں کے
باوجود آپس کی محبت برقرار رکھے رہے۔ اسی طرز پر آج کے مسلمان بھی باہمی محبت
اور اتفاق کے لئے اسی قاعدہ "رأي صواب يحتمل الخطأ ورأي غيري
خطأ يحتمل الصواب" پرعمل کریں۔اس قاعدے کے سابقہ قرن
اول والے محل کے متلاشی نہ رہیں۔
اگر پیر بھائی جتنی
تعظیم نہیں دے سکتے توکم از کم ذمی کے احکام تو دیں۔
ہم اپنے پیر بھائی ، تنظیمی بھائی ، تبلیغی
بھائی ،جہادی بھائی ، سیاسی بھائی، کو سگے بھائی سے زیادہ حقوق دینے کے لئے تیار
ہیں۔ مگر اپنے نبی کی نسبت سے بننے والے بھائی کو کافروں سے بھی زیادہ مبغوض
سمجھتے ہیں۔انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم سب غیرمسلموں کے حقوق اور ان کے ساتھ
تعلقات کے درجے تو آگے بڑھ کربتاتے ہیں ۔کہ غیر مسلم کے ساتھ مواسات جائز ہے ،
معاملات جائز ہیں ، معاشرت جائز ہے ۔موالات اور مواخات جائز نہیں ۔ مگر صرف وہی حقوق جو ہم کافر کودینے کے لئے
تیارہیں لیکن وہی حقوق ہم اپنے پڑوسی کلمہ پڑھنے والے ، مسلمان بھائی کودینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اہل کتاب کے لئے قرآن کا دیا گیا فارمولا:۔
اگر ہم اپنے علاوہ سب کو نامسلم بھی فرض کرلیں
تو بھی کم از کم اہل کتاب تو مانیں گے اور اہل کتاب کے ساتھ بھی باہمی اچھے تعلقات
رکھنے کاطریقہ قرآن کریم نے بتایا ہے :
﴿قُلْ
يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ
أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ
بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا
اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾ [101]
اس آیت میں جوطریقہ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ
متفقہ چیزوں کو اختیار کرلیں ، اور انہی پر باہمی بات چیت رکھیں ۔ مختلف فیہ چیزوں
کوچھوڑ دیں ۔
صریح کافروں کو بھی
قرآن نے مومنوں کے موازی ذکرکیا ہے:۔
اور قرآن تو ایمان والوں کو یہودیوں ،
نصرانیوں اور صابیئوں کے مقابلے میں رکھ کر بتا رہے کہ کامیابی سب کو حاصل کرنا
ممکن ہے : آیات حسب ذیل ہیں ۔
﴿إِنَّ
الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ
بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ
رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾[102]
صریح کافروں کے ساتھ
حسن سلوک :۔
اگر اس سے ایک درجہ اور آگے اگر سب کو
مشرک اور کافربھی سمجھ رکھا ہے تو بھی جو
کافر آپ سے قتال نہیں کررہااس کے ساتھ بھی اچھاسلوک کیا جاسکتا ہے۔
﴿لَا
يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ
يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ
اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾[103]
نتائج بحث:
أ-
مسلمان پوری
دنیا میں باہمی اختلاف وانتشار کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہورہے ہیں۔
ب-
قرآن نے
اختلاف وانتشار سے نکلنے کے لئے اصول مہیا کئے ہیں۔
ت-
اختلاف
وانتشار سے نکلنے کے لئے سب سے پہلی چیز خدا کاڈر اور دوسری چیز موت کی یاد ہے۔
ث-
اختلاف
وانتشار سے نکلنے کے لئے دشمنی کو اندھاکنواں اور امن کو نجات سمجھناضروری ہے۔
ج-
اگر
دومسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہو تو ایک جماعت کاکام ہی یہی ہونا چاہئیے جو صلح
کروائے۔
ح-
دنیا کی ذلت
ورسوائی اہم نہیں ہے آخرت کی ذلت و رسوائی اہم ہے۔
خ-
قرآن کے
ترجمے میں اختلاف کی تین وجوہات ہیں۔
د-
پہلی وجہ
تسامح اور بے توجہی کے باعث کسی لفظ ،
جملے یا ترکیب کا غلط ترجمہ کردینا۔
ذ-
دوسری قسم اردو
ترجمہ کرتے ہوئے کسی لفظ ، جملے یا پیرائے سے بے ادبی مترشح ہونا۔
ر-
تیسری قسم
اپنے مسلکی مخصوص معنی ٰ حاصل کرنے کے لئے مخصوص ترجمہ کرنا۔
ز-
اس دنیا سے
رخصت ہوجانے والے مترجمین کے ترجموں میں تبدیلی ناممکن ہے۔
س-
پہلی دوقسموں
میں تبدیلی نئے ترجموں میں کی جارہی ہے۔
ش-
تیسری قسم کی
تبدیلی تھوڑی مشکل ہے۔
ص-
کیونکہ کوئی
بھی اپنی رائے ، عقیدہ ، سوچ سے ہٹنے کوتیار نہیں ، لہذ ا جدید دور میں استعمار ،
استشراق، اور سیکولرزازم کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنا
ضروری ہے۔
ض-
ہمیں اپنی
معذوری کے ساتھ جینا سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ط-
دوسرے مسلک
والوں کو کم ازکم غلط ممکنہ صحیح ہی مان
لیں۔
ظ-
اگر نہیں تو
کم ازکم ایک ذمی جتنے حق ہی مان لیں۔
ع-
دوسروں
کوزبردستی اپنے فرقے میں داخل کرنے کی کوششیں چھوڑدینی چاہیئے۔
غ-
عوامی مقامات
پر دوسروں کے معتقدات پر تنقید کرنے سے پرہیز کریں۔
ف-
دوسروں کی
رائے کا احترام کرنا سیکھیں۔
سفارشات:
«
اتفاقی
موضوعات پرتحقیقات کی جائیں۔
«
اختلافی
موضوعات کو حتی الامکان نہ چھیڑا جائے۔
«
جوباتیں جوڑ
پیدا کرنے میں معاون ہوں ایسی باتیں جمع
کی جائیں۔
«
اختلافی
موضوعات چھیڑے والوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔
«
علمی نقد علمی
بنیادوں پر کرنے اور سننے کاحوصلہ پیدا کیاجائے۔
«
معاشرے میں
تحمل پیدا کرنے والے موضوعات پر کام کیا جائے۔
1) القرآن
الکریم
2) الإمام
أحمد بن حنبل (١٦٤ - ٢٤١ هـ). مسند الإمام أحمد بن حنبل. ٥٠ (آخر ٥ فهارس)
vols. بيروت:
مؤسسة الرسالة, الطبعة: الأولى، ١٤٢١ هـ - ٢٠٠١ م.
3) پیرمحمد
کرم شاہ الازھری. جمال القرآن. گنج بخش روڈ لاہور: ضیاء القرآن پبلیکیشنز, ۱۹۸۶.
4) الفَضل
انٹرنیشنل. “جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے تحریف قرآن کے الزام پر ایک طائرانہ
نظر,” November 17, 2020. https://www.alfazl.com/2020/11/17/24479/.
5) ڈاکٹر
طاہر القادری. عرفان القرآن. ساتواں ایڈیشن اپریل ۲۰۰۶. لاہور:
منہاج القرآن پبلیکیشنز, n.d.
6) ڈاکٹر
محی الدین غازی. “اردو تراجم قرآن پر ایک نظر,” اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱) مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی
روشنی میں. Accessed January 11, 2022. http://alsharia.org/2014/nov.
7) سیدذیشان
حیدر جوادی. انوار القرآن. لاهور: مصباح القرآن ٹرسٹ, n.d.
8) فاری
فتح محمد جالندی. ترجمہ فتح محمد. جلال پور جٹاں گجرات: قرآں کریم سوسائٹی,
n.d.
9) “کنز
الایمان کا تفصیلی جائزہ.” Accessed January 13, 2022.
http://library.ahnafmedia.com/218-books/kanzul-iman-ka-taqeeqi-jaiza/1918-kanzul-iman-ka-tafseeli-jaiza.
10) محسن
علی نجفی. بلاغ القرآن. لاہور: مصباح القرآن ٹرسٹ, n.d.
11) محمد
حسین نجفی. “دانشکدہ | دانشکدہ اسلام کے آفاقی پیغام اور روشن تعلیمات کا فروغ.”
Accessed January 14, 2022. http://danishkadah.com/quranurdu.php.
12) مولانا
احمد رضابریلوی. کنزالایمان. بزم غلامان مصطفے ﷺ, n.d.
13) مولانا
اشرف علی تھانوی. تفسیر بیان القرآن. ۳ vols. لاہور: مکتبہ رحمانیہ, n.d.
14) مولانا
حافظ سید فرمان علی. ترجمہ فرمان علی. لاہور: عمران کمپنی,
n.d.
15) مولانا
سید ابولاعلیٰ مودودی. تفہیم القرآن. لاہور: ادارہ ترجمان القرآن,
n.d.
16) مولانا
محمود الحسن دیوبندی. تفسیر عثمانی و ترجمہ شیخ الہند. کراچی: دارالاشاعت,
n.d.
17) Bilal, M. “قرآ ن شریف کے غلط
ترجمو ں کی نشا ند ھی.” UrduMehfil.Net اردو محفل
(blog), December 17, 2006.
https://urdumehfil.net/2006/12/17/%d9%82%d8%b1%d8%a2-%d9%86-%d8%b4%d8%b1%db%8c%d9%81-%da%a9%db%92-%d8%ba%d9%84%d8%b7-%d8%aa%d8%b1%d8%ac%d9%85%d9%88-%da%ba-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b4%d8%a7-%d9%86%d8%af-%da%be%db%8c/.
18) “اردو
تراجم قرآن کی فہرست.” In آزاد دائرۃ
المعارف، ویکیپیڈیا, June 22, 2021.
https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88_%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%85_%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA&oldid=4639552,
#.
19) محدث
فورم [Mohaddis Forum]. “پروفیسر محمد طاہر القادری کے
متنازعہ افکار وکردار.” Accessed January 14, 2022.
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%81%DB%8C%D8%B3%D8%B1-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B7%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%AA%D9%86%D8%A7%D8%B2%D8%B9%DB%81-%D8%A7%D9%81%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D9%88%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1.10870/.
20)
Akram, Noor. “یاد
داشتیں: پہلا چلہ ، گوجرانوالہ اور لاہور2004.” یاد داشتیں
(blog), June 19, 2021. https://pastnoor.blogspot.com/2021/06/2004.html.
[1] الإمام أحمد بن حنبل (١٦٤ - ٢٤١ هـ), مسند الإمام أحمد بن حنبل,
٥٠ (آخر ٥ فهارس)
vols. (بيروت: مؤسسة الرسالة, الطبعة: الأولى،
١٤٢١ هـ - ٢٠٠١ م). (37/ 82 ط الرسالة):
[2] [آل عمران: 102 -
108]
[3] “اردو تراجم قرآن کی فہرست,” in آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, June 22, 2021,
https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88_%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%85_%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA&oldid=4639552,
#.
[4] [الكهف:
31]
[5] [يونس:
9]
[6] [الأعراف: 43]
[7] [الزخرف: 51]
[8] [الكهف:
109]
[9] ڈاکٹر محی الدین غازی, “اردو تراجم قرآن پر ایک نظر,” اردو تراجم قرآن
پر ایک نظر (۱) مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں, accessed January
11, 2022, http://alsharia.org/2014/nov.
[10] [النساء: 48]
[11] [النساء: ۱۱۶]
[12] [الفيل: 5]
[13] [التكاثر: 8]
[14] [الأنبياء: 13]
[15] [الفجر: 15]
[16] ڈاکٹر محی الدین غازی, “اردو تراجم قرآن پر ایک نظر.”
[17] نحل:
آیت 53
[18] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان (بزم غلامان مصطفے ﷺ, n.d.).
[19] پیرمحمد کرم شاہ الازھری, جمال القرآن (گنج بخش روڈ لاہور:
ضیاء القرآن پبلیکیشنز, ۱۹۸۶).
[20] تبیان القرآن: 6:ص 464
[21] تفسیر الحسنات: ج3:516
[22] “کنز الایمان کا تفصیلی جائزہ,” accessed January
13, 2022,
http://library.ahnafmedia.com/218-books/kanzul-iman-ka-taqeeqi-jaiza/1918-kanzul-iman-ka-tafseeli-jaiza.
[23] [النساء:
142]
[24] فاری فتح محمد جالندی, ترجمہ فتح محمد (جلال پور جٹاں گجرات:
قرآں کریم سوسائٹی,
n.d.).
[25] مولانا حافظ سید فرمان علی, ترجمہ فرمان علی (لاہور: عمران کمپنی, n.d.).
[26] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[27] M. Bilal, “قرآ ن شریف کے غلط ترجمو ں کی نشا ند ھی,” UrduMehfil.Net اردو محفل (blog), December 17, 2006,
https://urdumehfil.net/2006/12/17/%d9%82%d8%b1%d8%a2-%d9%86-%d8%b4%d8%b1%db%8c%d9%81-%da%a9%db%92-%d8%ba%d9%84%d8%b7-%d8%aa%d8%b1%d8%ac%d9%85%d9%88-%da%ba-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b4%d8%a7-%d9%86%d8%af-%da%be%db%8c/.
[28] النساء: آیت نمبر23
[29] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[30] انعام: آیت نمبر 150
[31] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[32] اعراف: آیت نمبر 49
[33] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[34] اعراف: آیت نمبر 66
[35] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[36] اعراف آیت نمبر 74
[37] “کنز الایمان کا تفصیلی جائزہ.”
[38] ڈاکٹر طاہر القادری, عرفان القرآن, ساتواں ایڈیشن اپریل ۲۰۰۶ (لاہور: منہاج القرآن
پبلیکیشنز, n.d.).
[39] ڈاکٹر طاہر القادری.
[40] ڈاکٹر طاہر القادری.
[41] ڈاکٹر طاہر القادری.
[42] “پروفیسر محمد طاہر القادری کے متنازعہ
افکار وکردار,” محدث فورم [Mohaddis Forum], accessed January 14, 2022,
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%81%DB%8C%D8%B3%D8%B1-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B7%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%AA%D9%86%D8%A7%D8%B2%D8%B9%DB%81-%D8%A7%D9%81%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D9%88%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1.10870/.
[43] “جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے تحریف
قرآن کے الزام پر ایک طائرانہ نظر,” الفَضل انٹرنیشنل (blog), November 17, 2020,
https://www.alfazl.com/2020/11/17/24479/.
[44] [الأنفال: 30]
[45] مولانا محمود الحسن دیوبندی, تفسیر عثمانی و ترجمہ شیخ الہند (کراچی: دارالاشاعت, n.d.).
[46] مولانا اشرف علی تھانوی, تفسیر بیان القرآن, ۳ vols. (لاہور: مکتبہ رحمانیہ, n.d.).
[47] مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی, تفہیم القرآن (لاہور: ادارہ ترجمان القرآن, n.d.).
[48] [البقرة: 15]
[49] مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی, تفہیم القرآن.
[50] مولانا محمود الحسن دیوبندی, تفسیر عثمانی و ترجمہ شیخ الہند.
[51] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[52] [يوسف:
8]
[53] مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی, تفہیم القرآن.
[54] مولانا اشرف علی تھانوی, تفسیر بیان القرآن.
[55] [الشورى:
52]
[56] مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی, تفہیم القرآن.
[57] مولانا اشرف علی تھانوی, تفسیر بیان القرآن.
[58] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[59] [البقرة:
115]
[60] مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی, تفہیم القرآن.
[61] مولانا اشرف علی تھانوی, تفسیر بیان القرآن.
[62] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[63] [الضحى:
7]
[64] مولانا اشرف علی تھانوی, تفسیر بیان القرآن.
[65] مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی, تفہیم القرآن.
[66] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[67] Noor Akram, “یاد داشتیں: پہلا چلہ ، گوجرانوالہ اور
لاہور2004,” یاد داشتیں (blog), June 19, 2021,
https://pastnoor.blogspot.com/2021/06/2004.html.
[68] الضحی:آیت 3
[69] الم شرح: آیت 3
[70] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[71] البقرۃ: آیت 273
[72] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[73] الشعراء: آیت 20
[74] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[75] البقرہ: آیت 26
[76] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[77] [آل عمران: 28]ب
[78] محمد حسین نجفی, “دانشکدہ | دانشکدہ اسلام کے آفاقی پیغام اور روشن
تعلیمات کا فروغ,”
accessed January 14, 2022, http://danishkadah.com/quranurdu.php.
[79] [النساء: 24]
[80] محسن علی نجفی, بلاغ القرآن (لاہور: مصباح القرآن
ٹرسٹ, n.d.).
[81] محمد حسین نجفی, “دانشکدہ | دانشکدہ اسلام کے آفاقی پیغام اور روشن
تعلیمات کا فروغ.”
[82] [المائدة: 6]
[83] محسن علی نجفی, بلاغ القرآن.
[84] محمد حسین نجفی, “دانشکدہ | دانشکدہ اسلام کے آفاقی پیغام اور روشن
تعلیمات کا فروغ.”
[85] سیدذیشان حیدر جوادی, انوار القرآن (لاهور: مصباح القرآن
ٹرسٹ, n.d.).
[86] الأنعام: 50
[87] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[88] ڈاکٹر طاہر القادری, عرفان القرآن.
[89] [الجن: 27]
[90] ڈاکٹر طاہر القادری, عرفان القرآن.
[91] [الكهف: 110]
[92] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[93] [الأحزاب: 45]
[94] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[95] [الفتح: 8]
[96] مولانا احمد رضابریلوی, کنزالایمان.
[97] [طه: 7]
[98] طاہرالقادری
[99] [الأعراف:
54]
[100] نواب وحید الزماں
[101] [آل عمران: 64]
[102] [البقرة: 62]
[103] [الممتحنة: 8]
No comments:
Post a Comment